تحریر: عارف بلتستانی
حوزہ نیوز ایجنسی। معاشرہ انسانوں کے ایسے مجموعے کا نام ہے، جو قلبی تعلقات، افکار، ارادوں اور چاہتوں کی ترکیب سے بنتا ہے۔ یہ جسموں اور بدنوں کی ترکیب نہیں بلکہ یہ تمدنی ترکیب ہے۔ یہ ایک مکمل نظریہ ہے۔ اس نظریے کے مطابق افرادِ معاشرہ کی جیسی شناخت ہوگی، وہی شناخت اُس معاشرے کی بھی ہوگی۔ معاشرے کی تہذیب و ثقافت افراد کی سوچ پر ہی منحصر ہے۔
احسن الخالقین، احسن المخلوقین سے احسن العمل چاہتا ہے تاکہ احسن الجزاء سے نوازے۔ خدا کی یہ چاہت، خود انسان کے رشد و کمال کی باعث ہے۔ انسان فطرتاً متفکر، متجسس، متحرک اور کمال جو جبلّت کا حامل ہے۔ کیا، کیوں اور کیسے جیسے لفظوں کی تشفّی کیلئے اس نے کھوج شروع کی اور کائنات کے کئی راز اور پوشیدہ پہلو کھول کر رکھ دئے۔ اس کی متجسس جبلت نےکائنات کے مادی، حیاتیاتی اور سماجی پہلوؤں کے بارے میں ایسی معلومات دیں، جن کی وجہ سے آج دنیا موجودہ شکل میں موجود ہے، جو ایک بحر رواں کی مانند چل رہی ہے۔
تاہم انسان کا تجسس اسے کہیں ٹکنے نہیں دیتا، اسی لئے خوب سے خوب تر اور نئی دنیاؤں کی کھوج میں وہ آج بھی سرگرداں ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ متفکر اور متجسس ہی انسان کو متحرک کرتا رکھتا ہے۔ جب تک انسان تلاش، کوشش اور تحقیق نہ کرے اس وقت تک نہ تو فرد کمال تک پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں کوئی ترقیاتی کام کر سکتا ہے۔ تحقیق کے بغیر معاشرہ کمال کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔
تحقیق (Research) کا مطلب ہے مسائل کو حل کرنے کیلئے بہت احتیاط کے ساتھ سائنسی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے تجزیاتی مطالعہ کرنا، جس سے مسئلےکا حل یا خود مسئلہ کھل کر سامنے آجائے۔ تحقیق عربی زبان سے ماخوذ ہے، جس کا معنی دریافت کرنا، کھوج لگانا،چھان بین یا تفتیش کرنا اور یہ معانی خود بھی بڑے معنیٰ خیز ہیں،جو اس شعبے کو عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔ تحقیق سے جہاں نیا علم تخلیق پاتا ہے، وہیں تخلیقِ علم کا بھی دروازہ ہے۔
آج دنیا گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس میں نظریات اور ارادوں کی جنگ جاری ہے۔ کمرہ محاذ میں بدل چکا ہے۔ کرسی اور ٹیبل مورچے میں بدل چکے ہیں۔ کتاب و قلم اسلحے کا کام کرتے ہیں۔ اسلحہ بنانے اور چلانے والے اہل علم، دانشور اور محققین ہیں۔ اگر دانشمند حضرات مورچے میں رہیں اور اسلحے سے لیس ہوکر استفادہ نہ کریں تو شکست یقینی ہے۔ یہ شکست باقی تمام شکستوں سے زیادہ مضر اور تباہ کن ہے۔ اس شکست کا تعلق صرف وقتی نہیں بلکہ نسل در نسل اور صدیوں سے ہے۔
مورچے میں دانشمند کی حرکت ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ یہی اہم موڑ معاشرے کی صدیوں سال کا فیصلہ رقم کرتی ہے۔ اب آپ پر منحصر ہے کہ تحقیق کے ذریعے معاشرے کو رشد و ترقی اور کمال کی طرف لے جائیں یا غفلت کا شکار ہو کر معاشرے کو جمود کا شکار بنائیں اور صدیوں کےلئے غلامی کا طوق انکی گردن میں پہنائیں۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ کا تبصرہ